محصور ہو چکی ہوں میں اپنے خیال دے
کتنے جواب قید ہیں بس اک سوال دے
کتنے رموز شوق ان آنکھوں میں رہ گئے
جن سے نگاہ دوست تھی وہ جمال دے
کھوئے ہوؤں کی یاد میں پر نم نہ ہو سکی
ان کی جبیں پہ خیر سے اک تو خیال دے
صدیاں ہماری راہ کو روکے کھڑی رہیں
اور زندگی گزرتی رہی ماہ و سال دے
بیتاب پستیوں سے نکل ہی نہ پائے ہم
کیا کیا بلندیاں تھیں کوئی بھی مثال دے
کتنا جئیں کہاں سے جئیں اور کس لئے
یہ اختیار ہم پہ ہے تقدیر اجال دے
آ ہی گئے ہیں خواب تو پھر جائیں گے کہاں
آنکھوں سے آگے ان کی کوئی بھی مثال دے