مدت سے دامن دل میں اٹکا یہ کانٹا کیوں ھے
وہ رگ جاں سے بھی اتنا قریب آیا کیوں ھے
ماہ تمام تو میری چشم نمناک میں ھے
پھر افلاک پہ تاروں کا جال پھیلا کیوں ھے
پھر اسکے ناوک سے کوئ قتل ھوا ھے شائد
آج رنگ حنا اسکی ھتیلی پہ بھڑکا کیوں ھے
شبنم سے پھولوں کو رعنائی تو ملی ھے لیکن
پھر آج بلبل کا بہاراں میں دامن چاک ھوا کیوں ھے
روداد محبت میں دل پہ یہ سانحہ تو بارھا گزرا
پھراشکوں کا پلکوں سے خودکشی کا معاملہ کیوں ھے
اک پھول کا تحفہ جو اسنے کبھی چاھت سے دیا تھا
احساس کی ڈالی پر وہ خیال جمال چمٹا کیوں ھے
زندگی تو کب سے تن ناتواں سے خون چوس چکی
آلام کی شدت سے پھر خون جگر آج بہا کیوں ھے
اگرچہ بجھا دیے ھیں ھم نے یادوں کے چراغ
آج کی شب پھر جشن چراغاں کا اندیشہ کیوں ھے
حسن اور بھی لوگ صفحہءھستی پہ متمکن ھیں مگر
پھران پرکیف نظاروں میں اسکی تصویر کا شائبہ کیوں ھے