مدتوں بعد ہوا ہے غریب آج مجھے
لے گیا کوچہ ء دلبر میں نصیب آج مجھے
مجھ کو تھا وہم اسے پیار ہے مجھ سے
وہ جو حیران ہوا دیکھ قریب آج مجھے
اسکے کاجل کی جو تعریف مرے دل نے کی
دل بھی محسوس ہوا پھر یہ رقیب آج مجھے
پھر نا جانوں کہ مری سوچ میں کیا کیا آیا
اپنی ہر سوچ بھی لاگے ہے عجیب آج مجھے
پھر سے اک بار سنو مثلِ مسیح ّ چڑھنا پڑا
شوخی و حسنِ تعاون کی صلیب آج مجھے
جو دوا زخمِ جگر بھرنے کو دیتا ہے یہاں
ڈھونڈ کے لادو کہیں سے وہ طبیب آج مجھے
جس نے خاموش سے انساں کو بنایا شاعر
جعفری یاد وہ آتا ہے ادیب آج مجھے