چل کھول دے اپنے در مسافر لوٹ کے آجا
چراغ پھر سے روشن کر مسافر لوٹ کے آجا
اب آنکھیں نم کیوں ہیں یہ دل پریشاں کیوں ہے
لبوں پہ اب مسکراہٹ کر مسافر لوٹ کے آجا
بےوجہ وبےسبب بےوفائی کا داغ ملا
تنہا رہا عمر بھر جدائی کا ساتھ ملا
کس کس سے ملی بےوفائی کس کس سے ملی رسوائی
چل چھوڑ ان باتوں کو ختم کر مسافر لوٹ کے آجا
خودی میں ڈوب کر اب مر خودی سے آنکھیں چار کر
اور دل کا آئینہ کھول دےاسی میں "ہمدوش" تلاش کر
مسافر لوٹ کے آجا
مسافر لوٹ کے آجا