مضطرب ھے آج بھی وہ شام کا پچھلا پہر
بے چینیوں میں کٹ گیا تیری جدائی کا سفر
پلکیں موندے سوچتے ہیں تیری گلی نہ جائیں گے
پر جب بھی دیکھا آئینہ تجھ کو ہی پایا تھا منتظر
زخمی زخمی راتیں ہیں اور چاند بھی پر سوز تھا
پہلی کرن تھی غم زدہ اور شکست خوردہ تھی سحر
کیسی خواہش تھی کہ یہ ھم تجھ سے ملتے ایکبار
پر راستے میں آگ تھی اور جل رھی تھی ہر اک نظر