مقدر کے گردش میں حیران ہوکر
محبت میں یوں ہی پریشان ہوکر
ہمارے دکھوں کی تمہیں کیا خبر ہو
نہ اس نے کبھی پوچھا مہمان ہوکر
سنوارا ہیں ہم نے ہی اپنی نظر سے
مگر تم نے رکھا ہے انجان ہوکر
اسی نے نہ سن پائی اپنی صدا بھی
جسے ہم نے ہر اک غم انسان ہوکر
ترے ذکر سے میری روشن ہے دنیا
میں بیٹھی ہوئی کب سے ایمان ہوکر
جہاں میں مری کوئی وقعت ہو کیسے
یہ ہے بے وفا اور میں شان ہوکر
تھکن دوڑتی ہے مری سانس میں اب
چلی آ قضا اب میں بے جان ہوکر
اسے دل سے وشمہ بھلائے گی کیسے
جسے سانس کی کوئی یوں جان ہوکر