دل کی گلی میں کبھی قیام کیجیے گا
فرصت ہو گر تو ہم سے کلام کیجیے گا
خودی کو گنوا بیٹھے تلاش محبوب میں
ملے گر آپ کو شوق پیام دیجئے گا
کھلے گا نصیبہ اس روز اپنا بھی حبیب
حسن شوخ کے سنگ جو شام کیجیے گا
کوچ کر گے پنکھ پکھیرو جو شہر سے تیرے
نہ اس وقت صنم الزام دیجیے گا
حسیں رتیں جو گزریں قربت میں تیری
کؤی چراغ تابندہ انعام دیجیے گا
مہکتا رہےجو ہمیشہ گوشہ دل میں
محبت کو ایسا کؤی نام دیجیے گا