کہتے ہیں جہاں والے کہ میں تم کو بھلا دوں
میں کیسے ہتھیلی کی لکیروں کو مٹا دوں
ڈر ہے زمین لرز ہی نہ جائے سوز سے
مژگاں پہ رکے اشک زمیں پر جو گرا دوں
ہیں میری دسترس میں خمر بھی خمار بھی
میں چاہوں تو ہر گام پہ میخانہ سجا دوں
آنے کا میرے شہر میں اک بار کہو تو
ہر راہگزر کو گل و گلزار بنا دوں
ممکن ہے تجھے زندگی کی سمجھ نہ آئے
ان آنکھوں میں جب تک نہ کوئی خواب سجادوں
پوچھے جو کوئی مجھ سے پتہ میری روح کا
میں اسکو تیری لرزتی سانسوں کا بتا دوں
اک بار میرے دل میں اتر کر تو دیکھ لو
مکن ہے تیری تجھ سے ملاقات کرا دوں