منتظر ہوں میں تیری برسوں سے
آشنا ہو نہ شب کے رستوں سے
تیری باتوں پہ اعتبار کیا
بھول جانا نہ آج وعدوں سے
تو محبت کی پھر گواہی دے
پھول کھلتے نہیں ہیں باتوں سے
زندگانی سے پیار کیا کرنا
کٹ ہی جائے گی تیری یادوں سے
محو حیرت سے دنگ رہتی ہوں
خوشبو آتی ہے جب دریچوں سے
کیسے تجھ پہ بھی اعتبار کروں
سانپ ڈستے ہیں آستینوں سے
ان میں چاہت کے پھول زندہ ہیں
دوستی ہے مری کتابوں سے
سب کی پگڑی اچھال کر بھی یہاں
کیسے رہتے ہیں وہ حجابوں میں
جس نے لوٹا ہے ساری دنیا کو
نام اس کا ہے اب نوابوں میں
سب کی پگڑی اچھال کر بھی یہاں
پیار کرتا ہے وہ حجابوں سے
لوٹ کھایا ہے ساری دنیا کو
خوف آتا ہے اب نوابوں سے
وشمہ رانی تو چھوڑ باتوں کو
آؤ چلتے ہیں اب ستاروں سے