منتظر ہوں میں یہ وفا نہ کریں
شب کے رستوں سے آشنا نہ کرٰیں
تیری باتوں پہ اعتبار کیا
دل کے نزدیک اور آ نہ کرٰیں
تو محبت کی پھر گواہی دے
بھول کھلتے کب آزمانہ کرٰیں
زندگانی سے پیار کیا کرنا
کٹ ہی جائے گی التجا نہ کریں
کیسے تجھ پر بھی اعتبار کروں
تیرے دعوے کو آزما نہ کریں
فرط حیرت سے دنگ رہتی ہوں
خشبو آتی ہے جب ہوا نہ کرٰیں
ان میں چاہت کے پھول زندہ ہیں
دوستی ہے مری وفا نہ کرٰیں
سب کی پگڑی اچھال کر بھی یہاں
پیار کرتا ہے وہ دغا نہ کرٰیں
جس کو پورا نہ کرسکے دنیا
خوف آتا ہے یہ جفا نہ کریں
وشمہ رانی تو چھوڑ وعدوں کو
آؤ چلتےہے اب سکھا نہ کرٰیں