خرد بھی حیرت میں گم کھڑی ہے، ادا جنوں کی عجیب ٹھہری
فرازِ دار و رسن کی منزل کسی کسی کا نصیب ٹھہری
انہی کا مقسوم نارسائی جو مال و زر کی زعم میں نکلے
جسے نویدِ وصال آئی کسی کی آہِ غریب ٹھہری
ہر ایک در کی ہے خاک چھانی تو جاکے آخر یہ بات جانی
کہ منزلِ جاں جو ڈھونڈتے تھے رگِ گلو کے قریب ٹھہری
یہ جب تلک جان جان میں ہے ہر اِک نَفَس امتحان میں ہے
حجابِ جاں درمیان میں ہے کہ اپنی ہستی رقیب ٹھہری