آنکھوں میں انتظار کی اک پیاس بو گئیں
ساون رتیں تو جیسے کہیں جا کے سو گئیں
اک اک لڑی میں پھول ہیں سو انتظار کے
کیا موتیوں کے ہار یہ پلکیں پرو گئیں
شدت گئی نہ موسمِ ہجرانِ یار کی
گو سرد، گرم ساعتیں اس میں سمو گئیں
کیا بولتی رتیں تھیں یہاں کوئی جانتا
جو اس کی راہ دیکھتی خاموش ہو گئیں
منظر مٹا سکیں نہ یہ تیرے جمال کے
یوں تو ہزار بارشیں آنکھوں کو دھو گئیں