موسم ہجر میں زخموں سے لدا رہتا ہے
دل وہ پودھا کے جو پت جھڑ میں ہرا رہتا ہے
بس یہ اک بات مجھے لاتی ہے نزدیک ترے
تو بھی تو میری طرح خود سے خفا رہتا ہے
تبصرہ اتنا ہی کافی ہے محبت کے لئے
مختصر سودے میں نقصان بڑا رہتا ہے
ہم سے بہتر ہے مقدر میں سیاہ پتھر جو
بن کے سرما تری پلکوں سے لگا رہتا ہے
کیا قصیدہ ترے رخسار کے تل کا یوں سمجھ
اک نگینہ ہے انگوٹھی میں جڑا رہتا ہے
در و دیوار سسکتے ہے کمی پر تیری
گھر میں خاموشی کا اک شور بپا رہتا ہے
اس کی آنکھیں ہے یا آباد کنویں ہے آفیؔ
آب غم جن میں مسلسل ہی بھرا رہتا ہے