مَیں کس طرح کروں نہ غم لٹ گئے
پھٹا مصیبتوں کا بم لٹ گئے
وہ ہوشیار جن کو لوٹنے گئے
وہ بچ گئے غریب ہم لٹ گئے
لطیفِ گفتگو میں یوں محو ہوئے
ہوا نہیں ذرا وہم لٹ گئے
ابھی تلک یقین کیوں ہوا نہیں
یہ مان لو خدا قسم لٹ گئے
ردا مری نگاہ پہ یوں ڈال کے
وہ سوچ کے چلے قدم لٹ گئے
ہمیں تو ان کی چاہ پہ نہ شک ہوا
یوں کر کے جعفری بھرم لٹ گئے