دلہن بنا کے لائی خود، کھٹک رہی ہے کیوں
محفل میں اُسے پاکے خود سٹک رہی ہے کیوں
بہو بنایا کہہ کے یہ لاکھوں میں ایک ہے
اب پھر سے اُسے چھان اور پھٹک رہی ہے کیوں
محفل میں یوں تو اور بھی حسین ہیں مگر
نظر میری اسی پہ ہی اٹک رہی ہے کیوں
میرا تو اُس گلی سے اب ہوتا نہیں گزر
کھڑکی میں بن سنور کے وہ لٹک رہی ہے کیوں
وہ بے وفا اُس سے اگر ملنے نہیں آیا
گالوں پہ اُس کے لالی پھر چٹک رہی ہے کیوں
اگر نگاہِ شوق اُسے مطلوب نہیں ہے
خود آپ کو چلتے ہوئے جھٹک رہی ہے کیوں
مہمان سب آئے نہیں، ورنہ میری نگاہ
محفل میں یوں اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہے کیوں
اُس سے چلی ہے ملنے تو کیا پوچھنا ریاض
راہ میں چلتے ہوئے مٹک رہی ہے کیوں