وہ کر کے وفا کا وعدہ مکرتا چلا گیا
اک شخص میرے دل سے اترتا چلا گیا
بدلی ہے رت ایسی کہ پتھر کا وہ صنم
پتوں کی طرح ہواؤں میں بکھرتا چلا گیا
گرا کے وہ سب دیواریں میرے مکان کی
بنا کے رستہ اک نیا گزرتا چلا گیا
ترک وفا کر کے وہ کھویا ہے اس طرح
کہ اپنے ہی راستے سے بھٹکتا چلا گیا
اپنایا تھا ہم نے ان کو اپنے خیالوں میں
دم میری سادگی کا وہ بھرتا چلا گیا
لاؤں کہاں سے ڈھونڈ کر اس بیوفا کو میں
سمندر میں جو دریاؤں کی طرح سمٹتا چلا گیا