تمہیں ہی سوچتے رہنا
بہت بے کار سے پھرنا
بڑے ہی سست سے ہو کر
خیالوں میں تجھے لا کر
کھٹولے پر پڑے رہنا
یہ عادت تو کبھی نہ تھی
کہ ہم تو زندگانی کے سمندر سے
دوانہ وار لڑتے تھے
بہائو کے مخالف بھی
بڑے گردے سے چلتے تھے
مگر یہ کیا ہوا ہم کو
کہ جب سے تم سے بچھڑے ہیں
یہ بازو ڈھیلے چھوڑے ہیں
سمندر سے یہ کہتے ہیں
ہمیں پاتال تک لے چل
کہ ہم نے موت سے پہلے
زمیں کی پستیوں کی آخری حدوں کو چھونا ہے
دل وحشی کا مفروضہ
کہ ہم کو ڈوبتا دیکھے تو شاید لوٹ آئے وہ
دلِ وحشی تو پہلے بھی
بہکتا تھا بھٹکتا تھا
مگر یہ کیا ہوا ہم کو