مہندی کا رنگ لال بڑی دیر تک رہا
غم کا احتمال بڑی دیر تک رہا
اکثر دل میں جھانکتے لحموں میں وشمہ
اس کی طرف خیال بڑی دیر تک رہا
یادیں پھر بھی اس کی آئیں کچھ اسطرح
ہجر کا یہ سال بڑی دیر تک رہا
مجھ کو معلوم تھا وہ میرا نہیں رہا
پھر بھی مجھے انتظار بڑی دیر تک رہا
باریشوں کی بوندوں کا گرنا اور پھر
نگاہوں میں اعتدال بڑی دیر تک رہا