بے قراری ہجر ہے شدت کا اضطراب ہے
دھوپ ہے سایہ ہے نہ ہی سراب ہے
تیرے شہر میں گھومتا پھرا میں بےقرار
تیرا مکان میرے لئے ایک عذاب ہے
تو مجھ کو جہاں ملا جنت وہیں بنی
شعلہ ہے شبنم ہے یا کہ شراب ہے
اس کیلئے تو کوئی مسافت بھی طے نہ کی
زیست میں لکھا ہوا طویل باب ہے
نکہت رعنائے گل ضیائے شمس و قمر
دہر میں ملا مجھے یہ سحاب ہے
چشمہ شاداب سا سیرت حیات کردے
صورت میں اس کی ایسی اک کتاب ہے
اسی سروسمن اسی رنگ و بو میں بلال
کیف مستی و سخن نغمہ طراز عالی جناب ہے