دست فرہاد ہے تیشہ ہے ستوں ہے یوں ہے
سر چڑھا عشق کا درپردہ فسوں ہے یوں ہے
مجھ کو تفصیل بتانے کی ضرورت ہی نہیں
مان جو لی ہے تری بات کہ یوں ہے یوں ہے
کس طرح کہدوں تقابل ہے چمن کا تجھ سے
تیری خوشبو توکہیں ان سے فزوں ہے یوں ہے
میں خرد کے بھی شکنجے سے نکل آیا ہوں
میری منزل کہیں بالائے جَنوں ہے یوں ہے
عشق کے شاہ کی آمد کا فسوں ہے شاید
حسن کی دیوی کا سر پھر سے نگوں ہے یوں ہے
یہ کسی ناگہاں طوفاں کی خبر ہے شاید
یہ جو دریا میں قیامت کا سکوں ہے یوں ہے
روح سے جسم کا ادغام نہیں ہے ممکن
وصل کی شب بھی اگر ہاں ہے نہ ہوں ہے یوں ہے
صرف تخلیق نہیں جان و جگر ہے جاناں
میرا ہر شعر مرا قطرہ ء خوں ہے یوں ہے
اصل اک ذات تھی اللہ کو دکھانی یارو
یہ ہی تو معاملہ ء کن فیکوں ہے یوں ہے