میری آواز پہ اک سانولی سی مرنے لگی
وہ شوخ لڑکی بہت پیار مجھ سے کرنے لگی
مجھے یہ کہتی ہے تم مجھ سے ملنے آ جانا
کسی سے ڈرنا نہیں اور نہ ہی گھبرانا
تمھاری بانہوں میں سو جاؤں گی پری بن کے
کیا ہے پیار تو پھر کیسا تم سے شرمانا
محبتوں کے سمندر میں وہ اترنے لگی
میری آواز پہ اک سانولی سی مرنے لگی
نظر میں شوخی لبوں پر ہے مسکراہٹ بھی
کرے جو بات تو ہوتی ہے گنگناہٹ بھی
چلی وہ آتی ہے بل کھاتی اور لہراتی
چھنک چھنک لیے ہوتی ہے اس کی آہٹ بھی
جوانی اس کی تو اب اور بھی نکھرنے لگی
میری آواز پہ اک سانولی سی مرنے لگی
کبھی تو آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کرتی ہے
کبھی زباں سے بیاں سب حالات کرتی ہے
ہے شوخ بھی وہ بہت اور چالاک بھی پوری
ہر ایک بات میں مجھ کو وہ مات کرتی ہے
بڑے حسین سے رنگ زندگی میں بھرنے لگی
میری آواز پہ اک سانولی سی مرنے لگی