میری تقریر باقی ہے ، میری تحریر باقی ہے
نہیں ہیں خواب آنکھوں میں مگر تعبیر باقی ہے
تیرے غم کو اٹھا کر اپنے پلکوں پر سجالوں گی
مری آنکھوں میں اشکوں کی ابھی تقدیر باقی ہے
اسی زنجیر سے تجھ کو میں اپنی سمت کھینچوں گی
لکیروں کی مرے ہاتھوں میں جو زنجیر باقی ہے
میری الفت کے آگے تیری پسپائی یقینی ہے
میرے ہاتھوں میں الفت کی ابھی شمشیر باقی ہے