مری تنہائیوں میں جب تری یادیں برستی ہیں
کبھی بادل برستے ہیں کبھی آنکھیں برستی ہیں
تجھے کھو کر یہ جانا ہم نے اپنی زندگی کھو دی
یہ دل بے تاب ہے ،ہونٹوں پہ اب آہیں برستی ہیں
نجانے ایسا کیوں لگتا ہے دستک دے رہے ہو تم
جو ٹھہرے پانیوں میں چاند کی کرنیں برستی ہیں
ہو جب بھی رات کے پچھلے پہر ٹھنڈی ہوا کا زور
تصور میں تری دہکی ہوئی سانسیں برستی ہیں
سدا آباد رہتا ہے یہ تنہا رہ نہیں سکتا
خموشی ہو تو پھر دل پر تری باتیں برستی ہیں