میری حالت بدل نہیں سکتی
شامِ غم کیونکہ ڈھل نہیں سکتی
احترامِ اُصولِ عشق سے اب
بات منہ سے نکل نہیں سکتی
ہمیں کیوں راستوں سے ہٹ جائیں
زندگی رُخ بدل نہیں سکتی
اس قدر غم کے سخت پہروں ہیں
اِک خوشی بھی مچل نہیں سکتی
ایک ہی شخص سے محبّت ہے
اور محبّت بدل نہیں سکتی
اب طبیعت بہت ہی نازک ہے
اور غم میں یہ جَل نہیں سکتی
یوں تو عاکف ہزار چہرے ہیں
یہ نظر تو بہل نہیں سکتی