چلوں تو چلتے ہی چلے جاؤں میں
رکوں تو صدیاں یونہی ایک جگہ بتا دوں میں
میری ذات کو لاحق ہیں خطرات خود مجھ ہی سے
دشمنی میں خود کی حد سے بڑھ جاؤں میں
اک تمنا لاحاصل سی اک آرزو بے نام سی
جلا رہی ہے تن من ۔۔۔ اب خاک میں ملجاؤں میں
جلا دوں سب کچھ جو کچھ میرا ہے یہاں پر
پھر خود کو جلتا دیکھ کر سکوں پاؤں میں
خواب سارے ہوا ہوئے اور خوشگمانی بھی آپ موت مرگئی
تلخ حقیقت زیست کی کچھ اسطرح آشکار کرجاؤں میں
خود کے ہاتھوں رسوائیاں مول لی ہیں اس طرح کہ
پاک دامن ہوکر بھی جہاں میں حیاء باختہ کہلاؤں میں
لکھوں تو اب کیا لکھوں میں کوئی فسانہ یا کوئی شعر
کورے کاغظ پر صرف کالی سیاہی ہی اب بھکراؤں میں
یہی میں ہوں یہی میرا فسانہ یہی حقیقت ِ زیست میری
تم نے جو پڑھا نہیں وہی میرا انجام جہاں میں کرجاؤں میں