ابھی تو خود کو بھی آزمایا نہیں
ابھی تو تجھ کو بھی بھول پایا نہیں
ابھی تو رنگ باقی خزاں کے ہیں
عجیب موسم یہ دل و جاں کے ہیں
میری راہ میں تو نشان منزل بھی نہیں
تم کو بھلائے میرے پاس ایسا دل بھی نہیں
ابھی تو مزہ تیرے انتظار میں ہے
لہو کا رنگ اجڑی ہوئی بہار میں ہے
میں تھک گیا ہوں غم دوراں مجھے سونے دو
نہ ستا اے غم جاناں مجھے سونے دو