ہاتھ کو دل پہ رکھ کے میرا ذرا پوچھئے گا
خواب یادوں کے دریچوں سے کبھی جھانکئے گا
تم کو جنت کی فضاؤں کا پتہ دیتا ہوں
میری نظروں سے کبھی آئینے کو دیکھئے گا
تجھے پتہ چلے الفت کی قدر و قیمت کا
میری طرح سے کبھی رات دن تڑپئے گا
کیا گزرتی ہے گلوں پر تیری تابانی سے
باغ میں بیٹھ کے تنہا کبھی تو سوچئے گا
اے غم زیست کسی لذت جنوں کے سبب
میں گرفتار وجد ہوں مجھے مت تھامئے گا
کبھی یوں ہو کہ تیری بزم میں برہنہ پا
میں پلٹ آؤں تو خود کو ذرا سنبھالئے گا
اس میں شعلوں کی حرارت کے سوا کچھ بھی نہیں
کبھی تاروں کی طرح فلک سے مت ٹوٹئے گا
روٹھ جانا بھی محبت کی اک ادا ٹھہری
ادا ادا ہے مگر مستقل نہ روٹھئے گا