میری وفاِ زیست کی خاموش گزر گاہیں
اس دل میں لیے پھر رہی ہو ں اُ س کی یادیں
اک با ر اُس کا دیکھنا کہ دل میں اُتر جانا
کم نہ تھیں وہ قیامت خیز آنکھیں
میں ٹوٹ کے سمٹی تھی اُس جنت سی ذات میں
وہ شام کا ڈھلنا اور اُس کی پناہ گاہیں
اُس کی ذات کا ہر شور یو ں ٹھہرہ میر ے اندر
وہ چُپ بھی رہتا ہے تو سُن لیتی ہوں اُس کی آہیں
وہ یو ں بیٹھ جاتا ہے پلکو ں کے دریچوں میں
کہ میں بھول نہیں پاتی اُس کی جلوہ گاہیں
اب تو یو ں عقیدہ سا ہے اُس کی ذات سے
میں نبھا جاؤں گی لحد تک اپنی وفائیں