میرے اشکوں کی جو دوا نہ ہوا
بیاں اس سے تو مدعا نہ ہوا
بوجھ مجھ پہ ہے اپنی دھرتی کا
قرض کچھ بھی مگر ادا نہ ہوا
میں نے رکھا سنبھال کر اس کو
عشق مجھ سے کبھی خفا نہ ہوا
بجھتی آنکھوں میں کوئی حسرت کا
ایک جلتا ہوا دیا نہ ہوا
کیسے پھولوں سے دوستی کر لوں
دشت میں جو مرا ٹھکانہ ہوا
اڑتے دیکھا جو اک پرندے کو
دل کا موسم بھی طائرانہ ہوا
سرخ آندھی چلی تھی اے وشمہ
تنکا تنکا ہے آشیانہ ہوا