ایک ہی چھت تلے گذارے تھے
وہ شب و روز کتنے پیارے تھے
ہار مانے جناب میں انکی
جو بھی تشبیہ استعارے تھے
کم پڑے انکی مانگ میں پھر بھی
آسماں کے جو کل ستارے تھے
کام کا کام تو محبت تھی
ورنہ سب کام ہی خسارے تھے
لُوٹ کے دل مرا بہت خوش ہو
مرے تو سانس بھی تمہارے تھے
یوں جدا ہیں کہ مل نہیں پاتے
ہم تو دریا کے دو کنارے تھے
تیز گاڑی کچل گئی ان کو
ایک بیوہ کے جو سہارے تھے
بھول سکتا نہیں وہ شب یارو
گیسوئے یار جب سنوارے تھے
کیوں رویے پہ انکے حیراں ہو
مفتی اتنے وہ کب ہمارے تھے