پھولو ں کے چمن سے آئی ہے
اےمٹی کی خوشبو تو میرے دیس سے آئی ہے
وہاں کے بھی کیا کہنے
تجھے محسوس کر کے لگتا ہے
اپنائیت میں بھیگ کے آئی ہے
میں تھک گیا ہوں یہا ں غیروں کے بیچ رہتے
میں نڈھال ہوں پرائے وطن کی غلامی کو سہتے
میرے ساتھ کوئی اپنا بیٹھ کے گپ شپ کرتا نہیں
مجھے کھانے کا اپنا سا ذائقہ ملتا نہیں
دھن دولت کمانے کے چکر میں پیستے
میں اپنی پہچان کھو بیٹھا ہوں
میرے دیس کی مٹی تیری قسم
تجھے اپنے پاس پا کر بہت خوش ہو بیٹھا ہوں
مجھے بھی سنگ لے جا اپنے
جہاں پر رہتے ہیں میرے اپنے
کوئی شیشں محل نہیں چاہیے مجھکو
ساتھ اپنوں کا چاہیے مجھکو
میں وہاں دووقت کی روکھی سوکھی کھا کر خوشی میں رہوں گا
اپنی اماں، اپنی بہن اپنے ابا کے آنگن کی خوشیوں میں زندہ رہوں گا
میرے دیس کی پیاری مٹی
میرا حال میرے اپنوں تک پہنچا دینا
کہ
میرا جینا بہت محال ہے یہاں
میرے دیس کے اپنے لوگوں کا احساس لازوال ہے وہاں