میرے سانسوں میں یادداشت رہتی ہے
اور آنکھوں میں اک کائنات رہتی ہے
اس نے شجاعت سے سب کچھ لے لیا
اب تو اپنے برہ کی باقیات رہتی ہے
تیرا ادراک ہی رہا اجڑنے کا سبب
مرکے بھی پیچھے کیا بات رہتی ہے
اس بھرے جہاں میں بچھڑا وہ سخی
پھر سے اس کی احتیاجات رہتی ہے
دکھ لینے کو ہی دل دے دیتے ہیں
یہی بڑی میری اخراجات رہتی ہے
اداؤں سے ادائیگی بھی ہے گھنیری
مزاج میں تو مفخرات رہتی ہے