میرے لب پہ ذِکْرِ ہُو کا تو وُرُود نہ رکے گا
میرا ہر نَفَس تو تیرا ہی ہمیشہ دم بھرے گا
تیرے درد سے ہو نسبت یہی آرزو ہے میری
تیرا درد ہی تو راحت کا میرے سبب بنے گا
کسی غیر سے نہ نسبت نہ تو التفات میرا
تیرے آستاں پہ ہی تو میرا سر جھکا ملے گا
کبھی سچ کو اس جہاں میں نہ ضرر کوئی بھی پہنچے
ملے اس کو کامیابی وہ جو حق پہ ہی جمے گا
نہ کسی کا امتحاں ہو تو وہ ہو سکے نہ کامل
کہ ہمیشہ گل تو کانٹوں کے ہی بیچ میں کِھلے گا
نہ اسے جھکا سکے ہی کبھی کوئی بھی تو طاقت
کہ یقیں ہو جس کا پختہ جو اسی پر بس ٹِکے گا
یہی اثر کو ہمیشہ تو ہو فکر عُقْبیٰ لاحق
کہ جو ہوگا کھوٹا سِکَّہ نہ وہاں پر وہ چلے گا