جھونکا ترے جمال کا چھو کر گزر گیا
منظر سبھی خیال کے تبدیل کر گیا
مشکل دیارِ غیر میں تھی جستجوئے زیست
پھر بھی یہ کارِ جہد سمجھ کر میں کر گیا
پھینکا یہ کس نے جھیل میں کنکر خیال کی
میرا سکون پاؤں سے سر تک بکھر گیا
کرتی ہے یوں ملول مجھے یادِ رفتگاں
جیسے کہ ان کے ساتھ ہی خود میں بھی مر گیا
سورج کو پی کے پیاس سمندر کی کب بجھی
الزام ظلمتوں کا مگر اس کے سر گیا
دکھتی ہے آئینے میں مجھے شکل غیر سی
میرے وجود سے مرا پیکر مکر گیا
رستے گمان کے اسے اب ڈھونڈتے رہیں
جانے کہاں سے آیا وہ جانے کدھر گیا
مقتل میں جیسے جشن کا ماحول بن گیا
جب وہ وفا کے نام پہ کٹوا کے سر گیا
آنکھوں میں اب بھی ہے مری اشکوں کی وہ گھٹا
ساون بھی انتظار میں یونہی گزر گیا