میرے پاس بھی ہو تم اور دور بھی
کہنا چاہو بہت کچھ لیکن ہوں مجبور بھی
خاموشیوں کی زبان بھی ہوتی ہے
خاموش رہ کر تمہیں کروں کبھی بور بھی
رات کے آخری پہر دستک دی یادوں نے
دروازہ کھولنا چاہوں لیکن ہوں خفاء بھی
تمہیں سننا ہی تو تھا جو فون کر دیا
آواز سن کر ہوگئی ہوں اور بے تاب بھی
میرے قلم نے شاید روزہ رکھ لیا
کئی دن لفظوں سے ہوں ناراض بھی
وہ کتنا خوش ہیں اپنی دنیا میں
لیکن میں اپنی دنیا میں ہوں اداس بھی
کب کرو گے سوچوں سے رہا مجھے
تھک گئی ہوں سوچ سوچ کر یہ سوال بھی