میرے ہوش اڑانے والے کہتے ہیں ہرجائی تو
میرے دل میں سمانے والے کہتے ہیں ہرجائی تو
سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں دل میں برپا طوفاں کو
بوجھ غموں کا اٹھانے والے کہتے ہیں ہرجائی تو
اپنے غموں کو ہم نے تو دل میں چھپا کے رکھا ہے
پھر بھی دیپ جلانے والے کہتے ہیں ہرجائی تو
کیا دنیا کو بتاتا پھروں حال اجڑی بستی کا
اذیت دے کر مسکرانے والے کہتے ہیں ہرجائی تو
ثقلین جو بیتی دل پہ تیرے تُو اس پہ تو ناداں نہیں
پھر کیوں یہ زمانے والے کہتے ہیں ہرجائی تو