میں آس اور آنکھ سجائے رکھتا
وہ کھویا چاند مجھے جگائے رکھتا
میری نظر کو نظر کی حد تک
کوئی نہ دکھتا سحر کی حد تک
تیرا بھی سہارا چھوُٹ گیا تو
کس کس کو سایہ بنائے رکھتا
یہ دھڑکنوں کا ردم رہا جو
تجھ سے کیا وچن رہا جو
آکے ملو کہ ٹوٹ نہ جائے
دل کو بھی کیسے بہلائے رکھتا
جس گلی سے گذر گیا تھا
ہر نگاہ سے الجھ گیا تھا
کہ کوئی پوچھے کہاں گیا وہ
تجھے سنتوشؔ جو بھائے رکھتا