میں ایک شبنم کا تازہ قطرہ پڑا جو گل پر

Poet: N A D E E M M U R A D By: N A D E E M M U R A D, UMTATA RSA

میں چھوٹے چھوٹے ہزار خانوں میں بٹ گیا ہوں
میں ایک جاں تھا ہزار جانوں میں بٹ گیا ہوں

وہ دن بھی کیا دن تھے بولنا تک نہ جانتا تھا
اور آج اپنے کئی بیانوں میں بٹ گیا ہوں

میں خام آہن تھا تیر مجھ سے گھڑے گئے ہیں
فقط تپا ہی نہیں کمانوں میں بٹ گیا ہوں

میں اک وطن تھا اگرچہ آبادیاں تھیں لاکھوں
وہی ہوں اپنے نگاہ بانوں میں بٹ گیا ہوں

میں ایک شبنم کا تازہ قطرہ پڑا جو گُل پر
تو دُھوپ کے خوف سے گمانوں میں بٹ گیا ہوں

میں ایک دولت تھا بے بہا نعمتوں کا منبع
اور آج بس چند خاندانوں میں بٹ گیا ہوں

ندیم میرا وجود ہے تار تار اتنا
کئی زمانوں کی داستانوں میں بٹ گیا ہوں

Rate it:
Views: 506
15 May, 2013