میں بُھول جانا چاہتا ہوں
بیتے دِنوں کی یادیں
ساتھ بتائی راتیں
محبت کے وعدے
وہ تمام چاہتیں
وہ عمر بھر کے غم
وہ چار دن کی رونقیں
بُھول کے سب کچھ
اب مسکرانا چاہتا ہوں
تری بے وفائی ترا پیار بھی
ترا اظہار ترا انکار بھی
خزائوں کے پیلے پتے
حسین موسمِ بہار بھی
وہ کومل دوا جیسے ہاتھ
زخم دیتی تلوار بھی
عشق کا کوئی بھی عمل
اب نہ دوہرانا چاہتا ہوں
غم کا خیال نہ رہے
کوئی شکوہ کوئی سوال نہ رہے
بھلا کے پرانی یادیں
دل میں کوئی ملال نہ رہے
اچھا تو بہت ہوگا اگر
زندہ اب نہال نہ رہے
زندگی کو آزمانے کے بعد
موت کو آزمانا چاہتا ہوں
وہ رم جم وہ برسات
وہ چاند تارے وہ چاندنی رات
وہ ناراضگی وہ پیار کی بات
کومل ہاتھوں میں
ترے کومل ہاتھ
مرنے سے پہلے
غمِ داستاں سُنانا چاہتا ہوں