میں تیری آنکھ سے فطرت کا ہر نظارہ دیکھوں
جی یہ کرتا ہے کہ جو دیکھا ہے دوبارہ دیکھوں
بے آسرا بے سرو ساماں ہوں اس بھرے جہاں میں
ہوں دن کبھی ایسے بھی کہ میں اپنا سہارا دیکھوں
بیچ بھنور میں نہ ڈوبتا ہوں نہ کنارا دکھتا ہے
گر اک بار یقیں دلا دے پھر میں بھی کنارا دیکھوں
تیرے حسن کو سنگھار کی ضرورت ہی کہاں ہے
پھر بھی جی یہ کرتا ہے تجھے اپنے ہاتھوں سنوارا دیکھوں
تو اپنے دیوانوں کی فہرست سے نہ نکال دے کہیں مجھے
چاند کے پہلوں میں اکثر میں خود کو ستارا دیکھوں