قسمت کا اپنے ہاتھ پہ تارا اتار کر
میں سر خرو ہوں پیار کا صدقہ اتار کر
اس زندگی کی سیج پہ مشکل ہے جی سکوں
کانوں سے تیرے پیار کا جھمکا اتار کر
اب مطمئن ہے میرے بھی آنگن میں مفلسی
کچھ خواہشوں کا جسم سے دھبہ اتار کر
وہ رفتہ رفتہ اپنا ہی رستہ بدل گیا
بھیجا تھا جس نےپیار کا نقشہ اتار کر
میں آپ اپنی ذات میں مسحور ہو گئی
اپنے لبوں پہ عشق کا نغمہ اتار کر
اب زیبِ طاق و بام ہیں ہجرت کے سب چراغ
دیوار و در سے درد کا دھبہ اتار کر
ٹھہرو ذرا میں روح کی چادر سمیٹ لوں
شہرِ جفا میں زندگی وشمہ اتار کر