میں سوچتا ہوں لکھوں داستانِ عشق مگر
مجھ پہ گزری ہے جو میں اس سے لرز جاتا ہوں
میں جو دیوانہ بنا پھرتا ہوں بادل کی طرح
پربتِ یاد سے ٹکرا کے برس جاتا ہوں
شام ہوتے ہی جلا لیتا ہوں چراغ مگر
پھر بھی آغازِ صبح کو میں ترس جاتا ہوں
قلم سے ہاتھ تلک ہاتھ سے وجود تلک
جب بھی لکھتا ہوں ترا نام ترس جاتا ہوں