میں نے جگنو کو ہم نوا رکھا
تِیرگی میں سدا دیا رکھا
تیری خوشبو نہ مجھ سے کھو جائے
تجھ کو اپنا ہی بس بنا رکھا
باتیں کرتا تھا آسمانوں کی
جس نے مجھ کو ہے زیرِ پا رکھا
اُس کی آنکھوں کے سامنے اکثر
اپنی آنکھوں کا آئنہ رکھا
وہ جو ہونٹوں پہ کِھل رہی تھی کلی
نام اس کا ہے اب دعا رکھا
اپنے آنسو بنا لئے دریا
اور جاری یہ سلسلہ رکھا
اُس نے توڑا ہے واسطہ مجھ سے
دل میں وشمہ جسے سدا رکھا