شب وصل کو انعام کیا کمال دیا اس نے
مجھے رسوا کر کے اپنی گلی سے نکال دیا اس نے
دور تھا تو کرتا تھا باتیں بہت محبت کی
ہوا رو برو تو ہنس کے مجھے ٹال دیا اس نے
میں تو آرزو لے کے گیا تھا مسکان کی لیکن
رونا عمر بھر کا جھو لی میں ڑال دیا اس نے
اسے خبر تھی میں پیاسا ہوں مدت سے اس لئے
اک دریا میری آنکھوں سے اچھال دیا اس نے
میں زود آشنا تھا جو کر لیا اس پہ اعتبار
اسی سبب میری تمناؤ ں کو زوال دیا اس نے
مجھے میری ہی نظروں میں آج گرا دیا امتیاز
تحفہ عشق اس سے کرنے کا بے مثال دیا اس نے