میں کس کی علامت ہوں جستجو سوال پوچھتی ہے
عجب ہے کہ تفتیش کبھی کبھی احوال پوچھتی ہے
اس ساحرہ کی تلخی میں کچھ ناسُور بن گئے
پھر سنگدلی بار بار وہی ملال پوچھتی ہے
کہو کہاں ہم شرف کی پھر حدیں روکلیں
یہ معزور سوچ تو تبادلے لازوال پوچھتی ہے
وہاں دروغ بندی کو جنت کا آسرا مل گیا
یہاں زندگی تو اپنا استقلال پوچھتی ہے
آج ہم ظرافت سے بھی رہا ہو چکے ہیں
ہر خوشی کی غنیمت یہی کمال پوچھتی ہے
میں ناتواں شخص کہاں جا سکتا ہوں سنتوشؔ
کہ مزاج دوراندیشی اب بھی خیال پوچھتی ہے