میں گھر بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
یہ در سجا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں حسرتوں کے اندھیرے میں تیری یادوں کی
شمع جلا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مجھے یقین ہے کہ تو مجھ سے دور ہے لیکن
یہ سب بھلا کے ترا انتظار کرتا ہوں
شبِ فراق کی تنہائیوں سے گھبرا کر
غزل بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
جنونِ عشق سے میں چاک پیرہن اپنا
رفو کرا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں بے بسی میں یہ اشکوں کی موتیاں چن کر
پلک سجا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں اس خیال سے کہ صبح ہو گئی ہوگی
دیا بجھا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مجھے چمن کی بہاروں پہ ناز تھا لیکن
چمن لٹا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں اپنے دل کے خرابے میں کچھ امیدوں کا
شہر بسا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مزارِ عشق و محبت کے ہر کنارے پر
شجر لگا کے ترا انتظار کرتا ہوں
ہجومِ یاس کی حالت میں اپنے اشکوں کے
گہر لٹا کے ترا انتطار کرتا ہوں