میں گھر بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
Poet: خلیلی قاسمی By: خلیلی قاسمی, Indiaمیں گھر بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
یہ در سجا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں حسرتوں کے اندھیرے میں تیری یادوں کی
شمع جلا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مجھے یقین ہے کہ تو مجھ سے دور ہے لیکن
یہ سب بھلا کے ترا انتظار کرتا ہوں
شبِ فراق کی تنہائیوں سے گھبرا کر
غزل بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
جنونِ عشق سے میں چاک پیرہن اپنا
رفو کرا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں بے بسی میں یہ اشکوں کی موتیاں چن کر
پلک سجا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں اس خیال سے کہ صبح ہو گئی ہوگی
دیا بجھا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مجھے چمن کی بہاروں پہ ناز تھا لیکن
چمن لٹا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں اپنے دل کے خرابے میں کچھ امیدوں کا
شہر بسا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مزارِ عشق و محبت کے ہر کنارے پر
شجر لگا کے ترا انتظار کرتا ہوں
ہجومِ یاس کی حالت میں اپنے اشکوں کے
گہر لٹا کے ترا انتطار کرتا ہوں






