میں گھر بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
Poet: خلیلی قاسمی By: خلیلی قاسمی, Indiaمیں گھر بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
یہ در سجا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں حسرتوں کے اندھیرے میں تیری یادوں کی
شمع جلا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مجھے یقین ہے کہ تو مجھ سے دور ہے لیکن
یہ سب بھلا کے ترا انتظار کرتا ہوں
شبِ فراق کی تنہائیوں سے گھبرا کر
غزل بنا کے ترا انتظار کرتا ہوں
جنونِ عشق سے میں چاک پیرہن اپنا
رفو کرا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں بے بسی میں یہ اشکوں کی موتیاں چن کر
پلک سجا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں اس خیال سے کہ صبح ہو گئی ہوگی
دیا بجھا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مجھے چمن کی بہاروں پہ ناز تھا لیکن
چمن لٹا کے ترا انتظار کرتا ہوں
میں اپنے دل کے خرابے میں کچھ امیدوں کا
شہر بسا کے ترا انتظار کرتا ہوں
مزارِ عشق و محبت کے ہر کنارے پر
شجر لگا کے ترا انتظار کرتا ہوں
ہجومِ یاس کی حالت میں اپنے اشکوں کے
گہر لٹا کے ترا انتطار کرتا ہوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






