اے نازنین تم بھی کیا اک لاجواب ہو
مدہوش جو کر دے مجھے ایسی شراب ہو
خموش جب بیٹھتے ہو تو پتھر کے صنم ہو
کھل جائیں جو یہ ہونٹ تو بجتا رباب ہو
آنے لگے ہو بام پہ قاتل کی شکل میں
پھر کیوں نہ دل تشنہ کی حالت خراب ہو
طاہر بھی دعا گو ہے بصد شوق بصد ناز
قوس قزح سے بھی بڑھ کر تجھ پر شباب ہو