نجانے وقت سے پہلے وفا نہیں ہوتا
جسے کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا
رہے گا آ کے تغیر ، اصول قدرت ہے
کوئی گرے گا تو یہ سلسلہ نہیں ہوتا
یہ دیکھنا مرا دشمن بھی دوست ہو گا مرا
مرے سلوک سے جب مسئلہ نہیں ہوتا
مجاہدوں سی جو تم زیست کر رہے ہو بسر
جہاں کا خوف ہو دل سے جدا نہیں ہوتا
سکون آج بہت ہے اداس دل کو مرے
تمھارے جانے سے شاید خلا نہیں ہوتا
خفا نہ ہو مری محبوب دل ہے دیوانہ
قریب پا کے تمھیں کچھ خفا نہیں ہوتا
اٹھا کے فرش سے موتی کو چوم لو وشمہ
غزال چشم کا آنسو بہا نہیں ہوتا