جو کوئے یار کو جائے وہ رہگزر بھی نہیں
مرے خیال کے پنچھی کے بال و پر بھی نہیں
نجانے کون سی منزل کا میں مسافر ہوں
عجب سفر ہے کہ وہ میرا ہمسفر بھی نہیں
وہ کیا امید ہے جس کی وہ بات کرتا ہے
اگرچہ دستِ مسیحا میں کچھ اثر بھی نہیں
اسی کے نام کی خوشبو بسی ہے لفظوں میں
عزیزِ جاں تو ہے ہرچند معتبر بھی نہیں
عطا ہے رب کی جو انکو بھی رزق دیتا ہے
کہ جن میں شکر نہیں اور خدا کا ڈر بھی نہیں