نصیب میں تیرے اچھا ہی ہمسفر ہوگا
Poet: مُعتبرؔ By: Zaid, Karachiنصیب میں تیرے اچھا ہی ہمسفر ہوگا
یہ کیا ضرور کہ وہ شخص مُعتبرؔ ہوگا
مجھے خوشی ہے تیری شادی ہونے والی ہے
تمھارے صبر کا اچھا ہی اک ثمر ہوگا
وہ لڑکا اچھا ہے، خوش رکھے گا سدا تم کو
کہ اُس کے ساتھ تیرا جینا عمر بھر ہوگا
مجھے بُھلا کے تیرے غم کو دُور کر دے گا
تمھارے واسطے خوشیوں کی وہ سحر ہوگا
تم اپنی ممی کو، پاپا کو دُکھ نہیں دینا
کچھ ایسا کرنا نہیں جس کا اُن کو ڈر ہوگا
ہمیشہ خوش رہو سسرال میں دُعا ہے میری
ہمیشہ خوشیوں سے لبریز تیرا گھر ہوگا
نہیں ہے کوئی شکایت کہ تم میرے نہ ہُوئے
نہ تم سے کوئی گِلہ مجھ کو عمر بھر ہوگا
تمھیں بھلانے کی کوشش بھی کرکے دیکھوں گا
کٹھن مگر یہ میرا واپسی سفر ہوگا
تیری خوشی کے لئے میں سدا دُعا گو ُہوں
ہر ایک لمحہ تیرا چین سے بسر ہوگا
کسی طرح بھی تجھے اپنا کر نہیں پائے
یہ استخارہ تو اب جان ہار کر ہوگا
ہمیشہ میرے لبوں پر رہے گا نام تیرا
ہمیشہ میرا جنوں تیرے نام پر ہوگا
تجھے نکال کے جیون میں کچھ نہیں بچتا
جو ساتھ رکھوںتو دنیا کا مجھ کو ڈر ہوگا
نجانے کتنے ہی تعویذ، دم، دُعائیں کی
جہاں پہ میں نہ گیا ایسا کوئی در ہوگا؟
بتاؤ دوست بھلا کس کو اب بناؤنگا؟
نجانے کون میرے دل سے باخبر ہوگا
نجانے تم سے ملاقات اب کہاں ہوگی
مجھے تو لگتا ہے شاید وہ دن حشر ہوگا
چلوں کہ وقتِ جدائی ہے فی امان اللہ
کبھی نہ تم کو میسر یہ مُعتبرؔ ہوگا
یہ کون بکھرے ہوئے حال میں پڑا ہے یہاں
اِسے اُٹھاؤ یقیناً یہ مُعتبرؔ ہوگا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






